میرکل کی کابینہ پناہ کے نئے اور سخت قوانین پر متفق
3 فروری 2016جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق جرمنی کی وفاقی کابینہ میں کئی مہینوں کی گفت و شنید کے بعد جرمنی میں سیاسی پناہ کے نئے قوانین پر اتفاق رائے طے پا گیا ہے۔ انگیلا میرکل کی حکومت کو توقع ہے کہ پناہ کے سخت قوانین جرمنی آنے والے تارکین وطن کی تعداد میں کمی کا باعث بنیں گے۔
نئے قوانین کے مطابق آئندہ جرمن سرحدوں پر ’ریسپشن سینٹر‘ بنائے جائیں گے جہاں محفوظ ممالک سے آنے والے پناہ گزینوں کی درخواستوں پر فوری فیصلہ کرنے کے بعد انہیں اپنے اپنے وطنوں کو واپس بھیج دیا جائے گا۔
کابینہ نے ایسے قوانین پر بھی اتفاق کیا ہے جن کے مطابق مہاجرین کے لیے اپنے اہل خانہ کو جرمنی بلانے پر دو سال کی پابندی عائد ہو گی۔ یہ قانون ایسے تارکین وطن پر لاگو ہو گا جنہیں بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق پناہ گزین کا درجہ حاصل نہیں ہے لیکن انہیں اپنے وطن واپس بھیجے جانے پر جان کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
انگیلا میرکل کی قیادت میں حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کی جانب سے یہ قوانین ایک ایسے وقت پیش کیے گئے ہیں جب کہ اگلے ماہ جرمنی کی تین اہم وفاقی ریاستوں میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ حالیہ جائزوں کے مطابق باڈن ورٹمبرگ، رائن لینڈ فالز اور سیکسنی انہالٹ میں مہاجرین مخالف سیاسی جماعت اے ایف ڈی کی مقبولیت میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔
انگیلا میرکل کی جانب سے اپنائی گئی ’کھلے دروازے کی پالیسی‘ کی وجہ سے گزشتہ برس گیارہ لاکھ سے زائد تارکین وطن جرمنی پہنچ چکے ہیں۔ اس پالیسی کی وجہ سے میرکل کی مقبولیت میں کمی کے علاوہ انہیں اپنے اتحادیوں کی جانب سے بھی شدید دباؤ کا سامنا تھا۔
سال نو کے موقع پر کولون میں ہونے والے جنسی حملوں میں مہاجرین کے ملوث ہونے کی خبروں کے بعد تارکین وطن کے بارے میں جرمن عوام کی رائے میں بھی تبدیلی پیدا ہونی شروع ہو گئی ہے۔ جرمن چانسلر نے حال ہی میں یہ اعلان بھی کیا تھا کہ رواں برس جرمنی آنے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں ’واضح کمی‘ کی جائے گی۔
برلن حکومت کی امیدوں کے برعکس سخت موسم کے باوجود اب بھی روزانہ اوسطاﹰ تین ہزار پناہ گزین جرمنی پہنچ رہے ہیں۔ رواں برس جنوری کے مہینے کے دوران 92 ہزار مہاجرین جرمنی پہنچے تھے۔
کابینہ کی جانب سے پیش کردہ قوانین میں مراکش، الجزائر اور تیونس کو ’محفوظ ممالک‘ کی فہرست میں شامل کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ محفوظ قرار دیے جانے کے بعد ان ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو جرمنی میں پناہ ملنا تقریباﹰ ناممکن ہو جائے گا۔
علاوہ ازیں حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ آئندہ ’انتہائی بیمار‘ پناہ گزینوں کے علاوہ عام بیمار تارکین وطن کو بھی ملک بدر کر دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ قتل اور جنسی زیادتی جیسے جرائم میں ملوث تارکین وطن، جنہیں جرمن عدالتوں کی جانب سے سزا سنائی جا چکی ہو گی، انہیں بھی ملک بدری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
کابینہ نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ جرمنی میں موجود پناہ گزینوں کو زبان سکھانے اور انضمام کے پروگراموں پر اٹھنے والے اخراجات پورے کرنے کے لیے تارکین وطن سے دس یورو ماہانہ وصول کیے جائیں گے۔